خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے گیا تو اس طرح گیا کہ مدتوں نہیں ملا ملا جو پھر تو یوں کہ وہ ملال میں ملا مجھے تمام علم زیست کا گزشتگاں سے ہی ہوا عمل گزشتہ دور کا مثال میں ملا مجھے ہر ایک سخت وقت کے بعد اور وقت ہے نشاں کمال فکر کا زوال میں ملا مجھے نہال سبز رنگ میں جمال جس کا ہے منیرؔ کسی قدیم خواب کے محال میں ملا مجھ
۔۔۔۔۔۔۔۔ظالم دسمبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر: محمد حسین نایاب شگری مجھے یاد ہے وہ زمانہ وہ شامیں اداسی وہ پت جھڑ کا موسم وہ راتیں تھی لمبی تیرا مسکرانا یوں بانہوں میں چھپنا ہواٶں کے رخ پر تیری بال اڑنا وہ زلفوں کی شوخی، ادا کافرانہ وہ سگریٹ کا پینا فسانے سناتے کبھی لیلہ مجنون، کبھی ہیر رانجھا پھر دونوں ہی تھک کر وہ ایک پیالی لیکر، چاۓ پلانا کبھی ایک سِپ تم، کبھی ایک سِپ میں وہ تم کو رولانا وہ تم کو ہنسانا منانا، ملانا یہ تھا اپنا دستور مگر کیا پتہ، تو جا چکی ہے کہ جیسے ہو سالِ گزشتہ پلٹ کر نہ آیا وہ ظالم دسمبر تھا شاید ۔۔۔۔۔۔الوداع ٢٠١٩ الوداع۔۔۔۔۔
Comments
Post a Comment